syed siraj udeen chirag khuda dad

سيد سراج الدين عطية الله (المعروف سید چراغ خداد") سید چراغ خداداد کا سلسلہ نسب حضرت نعمت اللہ ولی سے ہوتا ہوا رسید امام باقر امام زین العابدین وسید الشہد اوامام حسین ابن علی کرم اللہ وجہ سے جاملتا ہے ۔ آپ کے والد بزرگوار کا نام سید علی اور والدہ کا نام بی بی آمنہ تھا۔ بی بی آمنہ سید عبدالکریم اول کی ہمشیر تھیں ۔ آپ کی زوجہ محترمہ کا نام بی بی رابعہ تھا جومشہور بلیدی حاکم شیخ احمد کی صاحب زادی تھیں ۔ شیخ احمد بلیدی ایک خداترس نیک اور پارساشخص تھے ۔ شیخ درفشاں نے اپنی کتاب میں شیخ احمد بلیدی کی بڑی تعریف کی ہے ۔سید خداداد کے تین لڑ کے اور تین لڑکیاں تھیں ۔لڑکوں میں سیدعیسی نے درویشی کا راستہ اختیار کیا۔ سید موسی ڈگریوں کے روحانی پیشوا ہے اور سید اہا مگر بے اولا در ہے ۔ سید موسی نے بعد میں اپنے بیٹے کا نام سیدابا بکر رکھا۔ بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کا عقد ملک دینار حاکم کیچ سے دوسری بیٹی کا عقد سردار فقیر محمد میرواڑی سے اور تیسری بیٹی کا عقد ملا جنگی سے ہوا۔ جیسا کہ ہم سب کو علم ہے کہ ذکری تاریخ کے قدیم قلمی نسخوں اور لٹریچر کو نیست و نابود کیا گیا۔ ہمارے علمی اثاثے جلائے گئے اور ہمارے کئی بزرگان دین کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔صحیح ثبوت اورلٹر یچرز کی عدم دستیابی کی وجہ سے واجہ چراغ کا صحیح سن پیدائش معلوم نہ ہوسکالیکن تمام تاریخی واقعات کو سامنے رکھتے ہوۓ اغلب یہی ہے کہ آپ کی سن پیدائش 38 - 1035 ہجری ہوگی ۔ آپ شیخ محمد درفشاں کے ہمعصر تھے ۔ واجہ درفشاں کی سن پیدائش 1040 ہجری کی ہے اور آپ ان سے صرف چند سال بڑے تھے۔آ پکی پیدائش کے بارے میں ایک روایت یہی ہے کہ آپ ایران میں پیدا ہوۓ تھے اور کیچ میں بعد میں آۓ تھے ۔ ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ ایران سے کیچ آئے تھے۔ ایسا ہوتا تو شیخ خاندان خاص طور پر واجہ میر عبداللہ جنگی کی توسط سے اس کا کہیں نہ کہیں تذکر وضرور ہوتا۔ پھرشخ اور ملائی خاندانوں کا مسلک کے حوالے سے مستحکم روابط قائم تھے چنانچہ چراغ کا ایرانی تعلق کسی طرح سے بھی پوشیدہ نہیں رہتا۔ اس لئے مضبوط روایت یہی ہے کہ آپ کی پیدائش کیچ تربت میں ہوئی اور آپ نے یہیں وفات پائی۔ سید چراغ خداداد کا سن وفات بھی معلوم نہ ہوسکا لیکن گمان غالب یہی ہے کہ آپ کا سن وفات کہیں 1118 ہجری کے آس پاس ہوئی ہوگی ۔ شیخ درخشاں کی سن وفات 1120 ہجری ہے جبکہ شیخ درفشاں سید موئی کے دور میں ، واجہ چراغ کی وفات کے دوسال بعد آۓ تھے ۔ مہدی کے سب سے بڑے صحابی سید عبدالکریم اول تھے ۔ 1029 ہجری میں مہدی کے روپوش ہونے کے بعد سید عبدالکریم خلیفہ اور نائب مقرر ہوۓ ۔ آپ 1035 ہجری تک خلیفہ ر ہے ۔ ان دنوں حاکم مکران ملک خاندان کے فرخ شاہ جہانگیر تھے ۔ جب فرخ شاہ ، ذکری مسلک سے وابستہ رہے تو وہ اپنی نیک سیرت کردار اور زہد وتقولی کی وجہ سے مہدی کے خاص یاران میں شمار ہو گئے ۔ ملک فرخ بعد میں گوشیشیں ہو گئے اور حاکمیت چھوڑ دی ۔ جب بوسعید نے ملک خاندان کے آخری فرماں روا ملک مرزا سے اقتدار چینی اور ذکر بیت کے مبلغ اور حاکم بن گئے تو یہیں سے سید خداداد چراغ کی عظیم شخصیت سامنے آئی اور ذکری تاریخ کا عظیم الشان باب شروع ہو گیا۔ روایت کے مطابق جب مہدی کے 1039 ہجری میں عالم غیبت میں جانے کا وقت قریب آیا تو اس وقت 10 ’’ اصحابان خاص‘‘ میں سے صرف جوان سال بوسعید توکلی جاگا ہوا تھا۔ روایت کے مطابق مہدی نے’’ذکر وحدت‘‘ کا وعظیم تحفہ بو سعید توکلی کے حوالے کیا اور یہ ہدایت کی ایک شخص ( بغیر نام بتاۓ ہوۓ ) از خود آ کر آپ سے وہ تحفہ طلب کرے گا تو میدان کے حوالے کرنا و شخص میرا خاص بندہ ہوگا۔ پھر ایساہی ہوا۔ خداداد چراغ تشریف لائے اور تحفہ طلب کی ۔ بوسعید نے چند سوالات کے تسلی بخش جوابات پر وہ تحفہ والیہ چراغ کے حوالے کئے ۔ چراغ خداداد گو کہ مہدی کے بعد پس منظر میں آئے تھے۔ لیکن انکومہدی کے وارث اور جانشین ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ کیا یہ رتبہ کم ہے کہ مہدی کے فرمان کے مطابق دیا جانے والا تحفہ کسی اور کو نہیں صرف اور صرف واجہ چراغ خداداد کے لئے مخصوص تھا۔ واجہ چراغ نائب مہدی کے عہدے پر مسکن پزیر ہوۓ اور اس قدر تبلیغ ذکر یت کی کہ تاریخ ذکر بیت آپکا ہمیشہ احسان مندر ہے گا ۔ مہدی کی جانب چند ایک سوغات مشلاجیہ ، کچکول ،عصاء تشیع اورنجر وغیرہ جیسا کہ ایک چند روایتوں میں ہے کہ چراغ خداداد کو دیئے گئے ۔ لیکن سب سے اعلی سوغات وہ ذکر خداوندی ہے جسکی بنیاد پر ذکری مذہب کی عمارت آج تک سالم کھڑی ہے۔ اگر وہ اشیاء ہونگی بھی لیکن ذکر میت کو چلانے اور قائم رکھنے کا ہتھیار صرف اور صرف ’’ذکر وحدت‘‘ ہے۔ جومہدی واجہ خدادادکو عطا فرما گئے ۔ چنانچہ ذکر وحدت‘‘ کسی نے ترتیب نہیں دی بلکہ مہدی مکمل ذکر اپنے ساتھ لائے تھے۔ یہی’’ذکر وحدت‘‘میر عبداللہ کی شرح اور تفسیر میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے جو مہدی کے اولین صحابیوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ وہ ابتداہی میں مہدی کے ساتھ ایران میں تھے اور بعد میں بیچ تشریف لاۓ۔ سید چراغ خداداد کے دور میں ذکر میت دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ کیونکہ واجہ چراغ کی شخصیت اتناحر کن تھا کہ جو ملتا تھا مہدی کے مسلک کو اختیار کرتا، تو شکایتیں خان آف قلات کے دربار تک پہنچیں کہ ایک شخص بنام خدادادساحر اور جادوگر مشہور ہے ۔ انہوں نے تمام مکران کو ذکر یت میں بدل دیا ہے۔ خاں آف قلات نے مولانا شیخ عزیز اللہ کی سرکردگی میں علماء کی ایک ٹیم کومکران روانہ کیا تا کہ بحث ومباحثہ کے ذریعے ذکری مذہب کو ایک باطل مذہب قرار دے کر تبدیلی مذہب پر قائل کر سکیں ۔ جب علماء پیج پہنچ گئے تو واہ خداداد چراغ نے قصرقند سے واجہ شیخ درفشاں کو اپنی روحانی کشش اور کمالات کے ذریعے اطلاع بہم پہنچائی کہ جلد از جلد پیچ پہنچ جائیں ۔ شیخ محمد فورا کیچ پہنچے۔ یہاں قارئین کے سامنے ان بزرگ ہستیوں کی کچھ روحانی کمالات اور علمیت کا ذکر کر نامناسب سمجھونگا۔ مولانا عزیز اللہ ج شیخ محمد کے انتظار میں کیچ ٹھہرے ہوئے تھے جب ملاقات کی تو گفتگو کا سلسلہ اس طرح شروع ہوا۔ علامہ عزیز نے شیخ محمد کو مخاطب کر کے کہا السلام علیکم ’’پا شیخ محمد عطار‘‘(عطار سے مراد عطر بیچنے والا ) واجہ نے فی البدی جواب دیا وعلیکم السلام - یاعزیز بیج رفتار ( شیزمی راہ پر چلنے والا ) واجہ شیخ محمد نے عزیز سے پوچھا ’’علم شما چیت‘‘ ( آپ کی علمیت کیا ہے ؟ عزیز نے جواب دیا ”علم من سوزن‘‘میری علمیت سوئی کی طرح یعنی سوئی کی طرح باریک ہے۔اب عزیز کی باری تھی انہوں نے والہ درفشاں سے یہی سوال دھرایا۔ والہ کا جواب ملاحظہ ہو۔ بی اس ملاقات اور علمی بحث کا آخری نقطہ ( ٹرنگ پوائنٹ ) تھا۔ واجہ نے کہا علم من متارکه کون سوزن را پاره پاروی کنم‘‘ ( میری علمیت اس بڑی سوئی کی مانند ہے جو سوئی کے سوراخ کو ٹکڑے ٹکڑے کر سکتا ہے ) جواب سنکر عزیز نے فورا ہتھیار ڈال دیئے۔ جان گیا کہ ریخ علمیت میں کسمقام پر ہے ۔ عزیز نے واجہ درفشاں سے کہا کہ میں نے ذکری مسلک قبول کیا۔ مہدی برحق ہے۔ انکی آمد پر میرا ایمان ہے۔ میں آپکے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ اور ذکری مذہب کو از روئے ایمان قبول کرتا ہوں ۔ واجہ نے کہا یہاں پر بیعت اور پیری مریدی کا حق صرف اور صرف واجبہ سید چراغ خداداد کو حاصل ہے ائے ہاتھ بیعت کر لواگر مجھ سے بیعت کر نا چاہتے ہو تو میرے ساتھ قصرقند چلو ۔ چناچہ عزیز واجہ درفشاں کے ساتھ قصرقند چلا گیا اور وہاں جا کر بیعت کر لی۔ مولانا عزیز کے علاوہ ایک اور نامدار شخصیت عزیزی لاری جو ایک بلند پایہ علم دین تھے۔ عزیز لاری نے ذکریت کی تبلیغ اور درس و تدریس کے لئے بہت کام کیا۔ واجہ عزیز اللہ کی مذہب کے ایک مبلغ اور سرگرم رکن رہے ۔ واجہ عزیز اللہ ذکری کی قرآن پاک پرلکھی ہوئی تفسیر تفسیر عزیزی‘‘ ایک نایاب تحفہ ہے ۔ سید چراغ خدادادایک بزرگ عالم دین ، دیندار اور مرشد کامل تھے آپ کی کاوشوں اور مرشدانہ قیادتوں کی وجہ سے ذکری مسلک دن بدن ترقی کرتا گیا۔ اور چارسو پھیل گیا۔ سیدنا محمد سراج الدین عرف چراغ خداداد نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ”کنز الاسرار ہے۔ یہ کتاب تصوف کے موضوع پر تصنیف کی گئی ہے اور تعلیم غوشیہ کی طرز پرلکھی گئی ہے۔ دیگر بھی کتابیں لکھیں لیکن دست بر دز مانداورنصیر خان نوری کے حملوں کی وجہ سے بچ نہ سکے۔ سید چراغ خداداد کے فرزندان سیدعیسی ،سید موسی وسیدا بابکر نے بعد میں ذکری مذہب کی ترقی اور نشونما کے لئے بہت کام کیا۔ واجبہ خداداد خود ایک کامل ولی اور صوفی منش در ویش تھے۔ آپ نے اپنے مریدین کو تلقین کی کہ اپنے نفس کو شیطان کے چنگل سے بچاۓ رکھو۔ شیطانی فریب اور طاقتیں انسان کو ہمیشہ در غلاتی رہتی ہیں لیکن شیطان کی شر سے بچے رہنے ہی سے نجات حاصل ہوتی ہے ۔ اسلام اور کفر کا ہمیشہ مقابلہ جاری رہتا ہے لیکن جیت ہمیشہ صداقت اور سچائی کی ہوتی ہے ۔ سارے اہل اسلام اکٹھے ہوں اور طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کر یں۔ آپ نے اپنے مریدوں کو نصیحت کی کہ ذکر الہی اور عبادات میں ثابت قدم رہیں تجھوٹ اور منافقت سے بچے رہیں ۔ مسلمانوں کو نیک کام کرنے پر در جات ملینگے ۔ مہدی کی تعلیمات کی روشنی میں ذکر الہی کو پابندی کے ساتھ ادا کرتے رہیں۔ا پی عورتوں کو ذکر کی تعلیم دیں اور انکو تاکید کر میں کہ پابندی کے ساتھ ذکر خداوندی ادا کر میں۔ جہاں لوگوں کو ضرورت پیش آۓ راہ خدا ہجرت ضرور کر یں ۔ جھگڑے اور فسادات سے ہمیشہ پر ہیز کر یں۔ جو جھگڑے اور فساد پھیلاتے ہیں وہ دین اسلام کے دشمن ہوتے ہیں۔ تاریخ ذکریت میں چراغ سید خداداد کو ایک اعلی مقام حاصل ہے ۔انہوں نے ایک چراغ ( شمع کی مانند ظلمت کے اندھیروں کو فاش فاش کیا اور ذکری اقوام میں وحدانیت کے چراغ کوروشن کیا۔ وہ پچ پچ کے چراغ تھے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post